معروف قوال اور نعت خواں امجد صابری کی والدہ نے
انکشاف کیا ہے کہ حملے والے دن جب وہ گھر سے نکلنے لگے تو ان سے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ ابا کے پاس جا رہا ہوں۔ اس روز وہ اپنی حمد ’’کرم مانگتا ہوں، عطاء مانگتا ہوں‘‘ مستقل گنگناتا رہا۔ امجد صابری پر حملے کے دن کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے ان کی والدہ نے بتایا کہ امجد صابری صبح سحری کے پروگرام سے واپس آیا تو اس سے رونے کی وجہ پوچھی جس پر امجد نے کہا کہ ’’اماں دل بہت اداس ہورہا ہے‘‘۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ مْنے تم اتنے بڑے ہوگئے کہ اماں سے باتیں چھپاؤ گے۔ یہ بات سنتے ہی امجد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کہنے لگا کہ بس دل بہت عجیب ہورہا ہے، اللہ خیرکرے ، آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ کل تک سب ٹھیک ہوجائے گا بس اپنا خیال رکھیں ، آپ کو اپنے پوتے پوتیوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرایا اور مجھے تسلی دے کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔امجد صابری کی والدہ نے بتایا کہ ’’اس تسلی کے باوجود بھی میرا دل بہت عجیب سا ہوگیا ، ایسا لگ رہا تھا کہ کلیجہ باہر آجائے گا، میں اس کے کمرے میں گئی اور آواز دی کہ امجد بیٹا ذرا بات سنو، وہ کمرے سے باہر آیا اور پوچھنے لگا کہ اماں خیریت تو ہے کیوں پریشان ہورہی ہیں ؟ وہ مجھے میرے کمرے میں لے گیا اور تسلیاں دینے لگا۔ اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے جس پر میں نے اسے کہا کہ تم سوجاؤ ، تمہیں صبح جلدی اٹھنا ہے اور پھر پورا دن مصروف رہو گے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اماں ایک دو دن کی بات ہے پھر تو بس سکون کی نیند سونا ہے، ساری تھکن دور ہوجائے گی اور یہ جو آپ میری فکر کرتی ہیں نا اس کی عادت ختم کردیں ، یہ کہہ کر اس نے نے میری آنکھیں بند کروائیں اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جاتے جاتے مجھ سے پوچھنے لگا اماں یہ مغفرت کا عشرہ چل رہا ہے نا ؟ میں نے کہا ہاں تو کہنے لگا اللہ ہماری عبادتوں کو قبول کرے اور ہم سب کی مغفرت کا اعلان کردے، آمین۔۔ صبح 11 بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو امجد اپنے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا تھا، میں نے طبیعت سے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگا کہ اب ٹھیک ہے۔ اس کے بعد امجد نے اپنے بچوں کو اٹھایا اور کہا کہ مجھے دادا کا کلام ’’لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی‘‘ سناؤ ، جس پر میرے پوتے نے کہا کہ بابا آج نہیں کل سنا دوں گا آج میرا دل نہیں چاہ رہا، جس پر امجد نے بے ساختہ جواب دیا کہ ‘‘ابھی بابا فرمائش کررہے ہیں تو نہیں سنْا رہے پھر جب تمہارا سنانے کا دل چاہے گا تو میں نہیں سنوں گا‘‘۔اسی اثناء میں ظہر کی اذان ہوئی اور اس نے فرمائش پر لال کرتا نکلوا کر پہنا، نمازادا کرکے کہیں کام سے جانے کی تیاری کرنے لگا، میں نے اس سے پوچھا بیٹا کہاں جارہے ہو، تو اس نے کہا کہ ’’ابا کے پاس ‘‘میں نے کہا صبح سے کیا فالتو بکے جارہا ہے، تو ہنستے ہوئے کہنے لگا اماں فکر نہیں کرو میں واپس ضرور آؤں گا لیکن وہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا۔ امجد صابری کی گاڑی پر جب فائرنگ ہوئی اس وقت ہمارے گھر بجلی نہیں تھی اس لئے پڑوسی نے اطلاع دی کہ امجد کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے اور کچھ ہی دیر بعد ان کے انتقال کی خبر مل گئی اور یوں امجد واقعی ’’اپنے بابا کے پاس چلا گیا‘‘۔
Comment here